اٹھارویں آئینی ترمیم کیا ہے؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اٹھارویں آئینی ترمیم 8اپریل 2010 کو پاس ہوئی. اس ترمیم کی رو سے آئین میں سو کے قریب تبدیلیاں کی گئیں جنہوں نے آئین کے 83 آرٹیکلز کو متاثر کیا. اس ترمیم کی رو سے ضیاء دور میں کی گئی تقریباً تمام آئینی ترامیم کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مشرف دور کی 17ویں ترمیم کو بھی رول بیک کیا گیا.
اٹھارویں ترمیم کے تحت
○ شمال مغربی سرحدی صوبہ کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھا گیا۔
○ دو صوبوں کے انگریزی ناموں کے سپیلنگز میں تبدیلی کے تحت Baluchistan کو Balochestan اور Sind کو Sindh کیا گیا ہے۔
○ 1973کےآئین میں شامل آرٹیکل6ریاست اور آئین سےغداری میں ملوث افراد کےلیے سخت سزائیں تجویز کی گئی تھی، اٹھارویں ترمیم کےتحت اس میں مزید تبدیلی کرکے آرٹیکل 2۔6 الف کا اضافہ کیاگیا ہے۔ جس کےتحت آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی میں ملوث افرادکو سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت معاف نہیں کرسکتی.
اٹھارویں ترمیم کے تحت
○آرٹیکل 25 الف کا اضافہ کر کے 5 سے 16 برس کی عمر تک تعلیم کی لازمی اور مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
○آرٹیکل 38 کے تحت صوبائی اکائیوں کے درمیان موجود وسائل اور دیگر خدمات کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے تحت
○ بدنام زمانہ آرٹیکل 58 (2) بی جو فوجی آمر ضیا الحق نے متعارف کروائی تھی اور بعد ازاں ایک اور آمر پرویز مشرف کے دور میں اس کو دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے تحت
○ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، پہلے یہ اختیار صرف صدر مملکت کو حاصل تھا، اب اس کا اختیار جیوڈیشل کمشن اور پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
(اس ترمیم کو چیلنج کردیا گیاتھا اور چندتبدیلیوں کے ساتھ 19ویں ترمیم کاحصہ بنایاگیا)
اٹھارویں ترمیم کے تحت
○ صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 70، 142، 143، 144، 149، 158، 160، 161، 167، 172، 232، 233 اور 234 کو جزوی یا مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔
○اٹھارویں ترمیم میں بجلی کی پیداوار کا معاملہ مکمل طور پر صوبائی اختیار میں دیا گیا ہے.
○قومی فنائنس کمیشن ، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا ہے
○اٹھارویں ترمیم میں سب سے اہم معاملہ ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کے متعلق ہے۔ اب ہنگامی صورت حال کا نفاذ صدر اور گورنر سے لے کر صوبائی اسمبلی کو دے دیا گیا ہے۔
○ایک اور بڑی تبدیلی یہ کی گئی کہ آرٹیکل142ب اور ج کےتحت صوبائی اسمبلیوں کوکریمینل قوانین، طریقہ کاراور ثبوت اورشہادت جیسےقوانین کا اختیاردے دیا گیاہے۔ آرٹیکل280 الف الف کےتحت موجودہ قوانین اس وقت تک نافذالعمل رہیں گےجب تک کہ متعلقہ صوبائی اسمبلیاں ان قوانین کےبدلےمیں نئےقوانین پاس نہیں کرتیں۔
○اٹھارویں ترمیم کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے پارلیمانی نظام حکومت کو واپس لاگو کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 46، 48، 75، 90، 91، 99، 101، 105، 116، 129، 130، 131، 139، 231 اور 243 میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
○اٹھارویں ترمیم میں مختلف تبدیلیوں کے ذریعے صدر کو حاصل اختیارات میں خاطرخواہ تبدیلی کی گئی ہے۔ اب صدارتی اختیارات، عوام کے منتخب و نمائندہ وزیر اعظم، پارلیمان، صوبائی اسمبلیوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔
○اٹھارویں ترمیم سے قبل اہم عوامی أمور کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کا اختیار صرف صدر مملکت کے پاس تھا، اب یہ اختیار صدر سے واپس لے کر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے وزیر اعظم کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
○اٹھارویں ترمیم کے تحت آئین سے آمر ضیاالحق کے لیے “صدر” کے لفظ کو نکال دیا گیا ہے۔
(ان ترامیم کو پڑھیں، سمجھیں اور سوال اٹھائیں کہ ان ترامیم میں ایسا کیا ہے کہ "کچھ لوگوں" کی خواہش پر ایوانِ اقتدار پر مسلط کچھ لوگ ترمیم کو ختم یا تبدیل کرنا چاہتے ہیں)
Comments
Post a Comment