Vaccine ویکسین
*ویکسین (Vaccine)*
ویکسین متعدی امراض سے بچاؤ فراہم کرتی ہے۔ یہ کسی بھی وائرس یا بیکٹیریا جس سے بچاو مقصود ہو اسی سے بنائی جاتی ہے۔ (وائرل ویکسین)عام طور پر وائرس کو مار کر یا اسکو کمزور کر کے بنائی جاتی ہیں۔ جبکہ وائرس کے بیرونی پروٹینز کو الگ کرکے یا ان پروٹینزکی جینزکوکسی بھی ویکٹرمیں ڈال کر بھی ویکسین بنائی جا سکتی ہے۔ دنیا میں سب سےپہلی ویکسین 1796 ء میں متعارف کرائی گئی۔ جو سمال پاکس (چیچک) کے خلاف تھی۔ اندازاً 300 سے 500 ملین لوگوں کی اموات کی وجہ سمال پاکس سے منسلک ہے۔
ویکسین نے بہت سے وبائی امراض کو روکنے میں مدد کی انمیں تمام وہ امراض جنکے ہم بچپن میں حفاظتی ٹیکے لگواتے ہیں وہ سب ان بیماریوں کی ویکسین ہیں۔ اسکے علاوہ نمایاں بیماریوں کو دنیا بھر سے ختم کرنے میں بھی ویکسین کا کلیدی کردار ہے جیسے پولیو، کالی کھانسی، ٹیٹنس ) Tetanus) وغیرہ سوائے چند ممالک کے دنیا بھر میں یہ وبائیں ناپید ہو چکی ہیں۔ ویکسین چونکہ جراثیم سے ہی بنی ہوتی ہے تو یہ بہت مخصوص انداز سے اس جراثیم کےخلاف ہمارے جسم میں برمحل قوت مدافعت اینٹی باڈیزکی صورت میں پیداکرتی ہے۔ تو ہمارے سیلز اس کی معلومات اپنی یاداشت میں رکھ لیتے ہیں۔ تو جیسے ہی وہ جرثومہ داخل ہوتا ہے تو سیلز 48 سے 72 گھنٹے میں وہ اینٹی باڈیز بنانا شروع کردیتے ہیں۔ اور وہ اینٹی باڈیز اس جرثومے کے ساتھ بائنڈ کرکے اسے بے اثر کر دیتی ہیں اور اس طرح انفیکشن نہیں ہو پاتا۔
چونکہ ویکسین بچاؤ کا کام کرتی ہیں اسلیے بیماری ہونے کی بعد نہیں دی جاتی۔ یہ بیماری کو ٹھیک کرنے میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتی۔
ویکسین کی تیاری ایک نہایت ہی پیچیدہ کام ہے۔عموماً ایک جرثومے کی ویکسین کی تیاری, سٹینڈرڈائزیشن اور منظوری میں 10 سے 15 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا 10 سے 15 سال۔
اسکے مراحل(کامیابی کی بعد دوسرا مرحلہ)۔
* جرثومے کو اگانا
* جرسومے کو بیماری فری کرنا یعنی ویکسین کا ایکٹِو پارٹ بنانا
* ٹشو سیل لائنز (لیب میں) پر جرثومہ کے تجربات
* جانوروں میں تجربات
* کم سیکیل پر انسانی ٹرائیل 50۔100 لوگ
* بڑے پیمانے پر ٹرائیل 200۔500 لوگ
* انتہائی پیمانے پر ٹرائیل ہزاروں (50/60) لوگ پر مشتمل
* منظوری کیلیے درخواست( FDA for USA, Drug Regulatory Authority for Pakistan)
* FDA کی مانیٹرنگ/ ٹیسٹنگ
* FDA منظوری
* بڑے پیمانے پر پروڈکشن
* منظوری کے بعد بھی FDA مانیٹرنگ جاری رہتی۔
ویکسین کی تیاری میں دو باتیں نہایت اہم ہیں جنہیں ہرمرحلہ پر پرکھاجاتا۔ وہ ہیں
1۔ ویکسین کی اینٹی باڈیز بنانےکی صلاحیت
2۔ کوئی بھی منفی ردعمل پیدا ہونا
اگر ویکسین مطلوبہ امیون سسٹم کو ایکٹیویٹ نہیں کررہی تو پروگرام کو اسی جگہ بند کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی سائیڈ ایفیکٹ کی صورت میں۔
ویکسین کی تیاری اسی لیئے اتنا وقت لیتی ہے وائرس دے کر اسکے جانوروں اور انسانوں پر وقت کے ساتھ مختلف فیز میں اثرات دیکھے جائیں، مرد و عورتوں میں، مختلف عمروں میں، کسی بیماری کی صورت میں، پریگنینسی کی صورت میں، کسی اور ویکسین اور ادویات کی موجودگی میں، مختلف ریسز میں۔
کمپنیاں جب انسانی ٹرائیل شروع کرتی ہیں باقاعدہ والنٹیرز کو مختلف خطرات جو لاحق ہوسکتے ہیں ان سے آگاہ کرتی ہیں۔ اور کچھ اسکا معاوضہ بھی دیتی ہیں اور یہ سب رضامندی سے ہی ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے ویکسین جانوروں میں تو ٹھیک کام کررہی ہو لیکن انسانی ٹرائیل پر آکر فیل ہوجائے
اگر انسانی ٹرائیل سے پاس ہوگئی ہے اور منظوری دے دی گئی ہے تو ویکسین محفوظ سمجھی جاتی ہے۔
لیکن اسکے باوجود اس کی مانیٹرنگ جاری رہتی ہے، اگر کسی بھی پیمانے پر بنیادی باتوں پر پورا نہیں اتر رہی ہو تو اسے بین کردیا جاتا ہے۔ اسکےلیے FDA اور CDC نے ملکر ایک پلیٹ فارم بنایا ہے۔ VAERS (Vaccine Adverse Event Reporting System)
اسمیں اگر آپ یا آپکا فیملی ممبر ویکسین کے استعمال کنندہ ہیں اور کوئی سائیڈ ایفیکٹ آیا ہے تو اسے رپورٹ کر سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ Vaccine Safety Datalink کے ذریعے بھی مانیٹر کیا جاتا ہے۔
*SARS COV-2 COVID-19*
کی ویکسین کی تیاری میں کافی کمپنیاں اور ریسرچ گروپس تگ و دو میں ہیں۔ اور مختلف تیکنیکس سے یہ کوششیں جاری ہیں۔ کچھ روایتی طریقوں پر کام کر رہی ہیں جبکہ کچھ نے نئی تیکنیک متعارف کرائی ہے۔ ایک کمپنی جو ان سب سے آگے ہے اسنے نئی تکنیک متعارف کرائی ہے
یعنی RNA based ویکسین۔ اس کمپنی نے محدود انسانی ٹرائل شروع کرنے کا دعوی کیا ہے۔ دیکھنا ہوگا یہ کہاں تک کامیابی حاصل کرپاتی ہے۔ اس سے پہلے کوئی بھی کمپنی DNA یا RNA based ویکسین کی منظوری نہیں حاصل کرسکیں۔ بہت سوں نے کوشس بھی کی۔ کہیں نہ کہیں ناکامی ہوئی۔
چونکہ ٹرمپ صاحب نے کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس نومبر تک ہر صورت ویکسین چاہتے ہیں جسکی وجہ سے کام میں تیزی ہے لیکن اسکے باوجود منظوری کے ادارے اور سائنسدان اس بات پر مصر ہیں کے 18 ماہ سے کم عرصے میں نہیں آسکتی وجہ وہی ٹرائل اور اثرات کی جانچ پڑتال۔ کچھ چہ مگوئیاں 12ماہ کی بھی آرہی ہیں لیکن ویکسین کے پیچیدہ مرحلے میں کسی بھی مرحلہ کو کم کرنا یا بائی پاس کرنا خطرہ سے خالی نہ ہوگا۔ جبکہ وائرس نوول ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ SOPs اسی شدو مد کیساتھ فالو کیے جائیں گے۔ وگرنہ ہوسکتا ہے کرونا سے تو جان چھوٹ جائے لیکن ایک اور گھمبیر مسئلہ اسکی وجہ سے سر اٹھا لے۔
(بشکریہ، ڈاکٹر عابد حسین قریشی، مائیکرو بائیالوجسٹ)
Comments
Post a Comment