نواز شریف اب نہیں آئیں گے



*نواز شریف اب نہیں آئیں گے*
میں آج جو لکھنے لگا ہوں وہ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی اتنا پرانا کہ اہلیانِ پاکستان کی یاداشت سے محو ہو گیا ہو، ہم بات کریں گے 2013 کے پاکستان کی۔
میرا خیال ہے کہ 2013 اور اس سے پہلے تقریباً 10سال پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دس سال تھے جب پاکستان ایک طرف تو دہشتگردی کا شکار تھا
اور دوسری طرف پاور پراجیکٹس نہ لگانے کی وجہ سے بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا تھا، دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ نے معاشی مسائل کا انبار کھڑا کر دیا تھا اور پاکستان کے ڈیفالٹ کر جانے کی خبریں ہر روز ملکی و غیر ملکی میڈیا کا حصہ بنتی تھیں. وار آن ٹیرر نے پاکستان کو ڈالر تو بےتحاشا دئیے مگر
اس وقت کے حکمران کو یہ عقل نہیں دی کہ ان ڈالرز کو ڈیویلپمنٹ پروگرامز میں انویسٹ کرے تاکہ پاکستان معاشی خودمختاری کی راہ پر گامزن ہو جائے. بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے اصل بات یہ ہے کہ 2013 میں جب نوازشریف نے عنانِ اقتدار سنبھالا تو
ملک دہشتگردی، لوڈشیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، علیحدگی پسند تحریکوں اور بدترین معاشی بحران کا شکار تھا. پاکستان وار آن ٹیرر کے نام پر تقریباً ستر ہزار سویلین اور باوردی عوام کو قربان کر چکا تھا، لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا محال اور روزگار کا حصوم مشکل بنا دیا تھا، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشوں کا راج تھا اور روشنیوں کا شہر ویران ہو چکا تھا، بلوچستان میں علیحدگی پسند یومِ آزادی کے موقع پر بھی پاکستانی پرچم نہیں لہرانے دیتے تھے. ان حالات سے نوازشریف کی مسلم لیگ نے کیسے مقابلہ کیا؟ وہ سامنے کی بات ہے البتہ اگر کوئی یہ سامنے کی بات
دیکھنا نہ چاہے تو اسکی مرضی ہی کہا جا سکتا ہے. صرف دو سال کے قلیل عرصے میں دہشت گردی، لوڈشیڈنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے جن کو قابو کر لیا گیا. اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کر کے ان تک عوامی رسائی آسان بنائی، ضربِ عضب اور رد الفساد جیسے عسکری مشنز کے ذریعے دہشتگردی پر قابو
پایا اور عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی. پاور پلانٹس اور دیگر ترقیاتی منصوبوں نے ملک میں خوشحالی کا دروازہ کھول دیا. قرضے لیے گئے مگر اس امید پر کہ ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی سے انہیں ری فنڈ کر دیا جائے گا،
آئی ایم ایف پروگرام کو اپنی شرائط پر ختم کیا گیا، سیکورٹی فورسز کا اعتماد بحال ہوا اور وہ ایک بار پھر یونیفارم میں پبلک مقامات پر نظر آنے لگے. سی پیک کے ذریعے خطے کا مستقبل روشن کرنے کے لیے چین سے وسیع معاہدہ کیا گیا اس کے علاوہ ن لیگ کے دیگر منصوبوں میں آسان شرائط پر قرضے،
وزیراعظم روزگار سکیم، طالب علموں کو لیپ ٹاپ اور وظائف دینے کے ساتھ ساتھ گھریلو صنعتوں کے لیے بھی قرضے دئیے گئے. ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے خودانحصاری کو لائحہ عمل بنایا گیا.
اس کے بعد جو ہوا وہ تکلیف دہ ہے اس کے ذکر سے گریز کرتے ہوئے ہم آج کے پاکستان کی طرف آتے ہیں.
آج ایک بار پھر پاکستان میں ایسے حکمران مسلط ہیں جنہیں نہ تو عوامی مسائل کا شعور ہے اور نہ ہی ادراک ہے. مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدحالی کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف کورونا وائرس کے دوران ہی اگر موجودہ سرکار کی کارکردگی پر نگاہ دوڑائی جائے تو نہ تو ہمیں کوئی پلاننگ نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی وے آف ایکشن. مختلف وزراء کے بیانات اور پی ایم کی کنفیوز تقاریر سے البتہ یہ ضرور لگتا ہے کہ انہوں نے سوچ لیا ہے کہ اگر دس سے بارہ لاکھ پاکستانی مر بھی جائیں تو کوئی بات نہیں. دوسرے ممالک میں بھی تو اتنے اتنے لوگ مر رہے ہیں.
ہمارے ملک کے حتمی فیصلہ سازوں جنہیں اشرافیہ بھی کہا جا سکتا ہے نے سوچ لیا ہے کہ مالک و مختار تو ہم ہی ہیں اور رہیں گے. جو بچ گئے ان پر ہم حکومت کریں گے جو مر گئے دفنائے جائیں گے. آخر ہر روز ایکسیڈنٹ، ہارٹ اٹیک، کینسر و دیگر بیماریوں سے بھی ہزاروں مرتے ہیں.
کیا فرق پڑتا ہے اگر کورونا سے بھی مر جائیں؟
اس وقت مقتدر حلقوں کو چھوڑ کر عوام عجیب بےبسی، خوف اور کسمپرسی میں مبتلا ہے کیونکہ مسلط شدہ حکومت کو عوام کی پریشانی نظر ہی نہیں آتی. عوام میں سے اٹھے ہوں تو نظر آئے نا۔
اس موجودہ سرکار کو پتہ ہی نہیں کہ عوام کو ان کے فیکٹ اینڈ فگرز کی نہیں ان فیکٹس اور فگرز کو کنٹرول کرنےکےلیے حکمت عملی جاننےکی ضرورت ہے.
تو پھر بےاختیار دل کہتا ہے کہ کوئی ایسا لیڈر حکمران ہو جسے عوام کی پریشانی تکلیف کا احساس ہو.
پاکستان میں تو بس ایک ہی ایساحکمران تھا:
نوازشریف
مگر اب نوازشریف کیسے آئے؟
اور کیا انہیں آنے دیا جائے گا؟
جن کامقصد دس بارہ لاکھ مروا کربھی پورا ہورہاہو وہ کیوں نوازشریف کو واپس آنے دیں گےیا بہترسٹریٹجی بنانےکاموقع دیں گے؟
تو ہم بےشک کہتے رہیں
تجھے پکارا ہے بےارادہ
جو دل دُکھا ہےبہت زیادہ
نوازشریف اب نہیں آئیں گے!

Comments

Popular posts from this blog

آن دا ریکارڈ آف دا ریکارڈ

محمد عالم لوہار پنجابی لوک موسیقی کا شہنشاہ