پی آئی اے فلائٹ 8303



پی آئی اے کراچی حادثہ پی آئی اے فلائٹ 8303 پر ہر 

بندہ اپنی رائے دے رہا مگر مجھے کچھ تحقیقاتی رپورٹس پڑھنے, کچھ ایکسپرٹس کے تجزیے پڑھنے اور سننے کے بعد یہ تجزیہ سب سے زیادہ حقیقت کے قریب لگا ہے آپ بھی پڑھیے۔ یاد رہے فائنل بات تو فل  انویسٹیگیش کے بعد ہی پتہ چلے گی مگر حالات واقعات اسی بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
رمضان کی اس دوپہر میں بھی لاہور سے آنے والی پی آئی اے کی پرواز 8303 کے پائلٹ نے مسافروں کو وقت سے پہلے کراچی پہنچادیا تھا پہلی لینڈنگ کے وقت یعنی 02:34 سے پہلے پائلٹ بہت جلدی میں تھا اور بہت اونچائی سے اپنی رفتار کو انتہائی تیزی سے کم کررہا تھا. ٹاور نے اسے متعدد دفعہ تنبیہہ بھی کی کہ یا تو نیچے اترنے کی رفتار کم کرو یا گھوم کر دوبارہ آؤ۔
پائلٹ یا تو اوورکانفیڈنٹ تھا یا زیادہ جلدی میں, اسکا ہر بار دعوی تھا کہ میں سنبھال لوں گا. اسوقت پائلٹ 3000 فٹ فی منٹ سے بھی زیادہ تیزی سے اپنی بلندی کو کم کررہا تھا. پالپا کے منہ چڑھے بہت سے پی آئی اے کے پائلٹ اسطرح کرنےکے عادی ہوتے ہیں اور ٹاور کے کنٹرولر کی نہیں سنتے بالخصوص اگر وہ سویلین کنٹرولر ہو. ائیر فورس کے کنٹرولروں سے البتہ انکی جان جاتی ہے۔ ملکی کنٹرولر کے احکامات پر عمل کرنے کی بجائے وہ ٹرانسمیشن کو بند کردیتے ہیں. رن وے سے عموما دو سے تین منٹ پہلے پائلٹ لینڈنگ گیئر کھول لیتے ہیں تاکہ کسی ایمرجنسی کی حالت میں مشکل سے نبٹنے کیلئے اضافی وقت میسر ہو. اس دوپہر جہاز کی رفتار چونکہ بہت زیادہ تھی اور پائلٹ چونکہ منع کرنے کے باوجود بہت جلدی میں نیچے آرہا تھا اور مزید یہ کہ اسنے جہاز کہ پہیئے( لینڈنگ گیئر) بھی دیر سے نیچے کئے (جو قطع نظر سیفٹی کے اصولوں کے بہت سارے خلیفہ پائلٹوں کیلئے مردانگی کی علامت سمجھی جاتی ہے بالخصوص پی آئی اے والے) عام حالات میں تو یہ سب کنٹرول ہوجاتا ہے مگر کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں پائلٹ کے پاس موقع نہیں ہوتا اور یوں یہ حرکتیں ایوی ایشن سیفٹی کے اصولوں کے خلاف ہوتی ہیں. تو 02:34 پر ہوا یوں کہ عین رن وے پر تیزی سے نیچے آتے جب پائلٹ نے لینڈنگ گیئر کھولا تو وہ کسی وجہ سے نہیں کھل پائے. اور ٹاور سے گفتگو کے دوران عین لینڈنگ کے وقت ڈنگ ڈنگ ڈنگ کی آواز صاف سنائی دی اگر پائلٹ یہ کام دو تین منٹ پہلے یعنی صحیح وقت پر کرلیتا تو اس ایمرجنسی سے نبٹنا آسان تھا. جہاز تیزی سے نیچے آرہا تھا اور لینڈنگ گیئر کھلے نہیں تھے تو وہی ہوا جس کا خطرہ تھا. 4500 فٹ یا آدھا رن وے گزرنے کے بعد بایاں انجن رن وے پر ٹکرایا اور رگڑتا چلاگیا. جہاز کوئی موٹرسائیکل یا کار نہیں تھی جسے دائیں یا بائیں موڑنا آسان ہو. یہاں تو انسان کو ایک ناممکنات کا سامنا کرنا ہوتا ہے یعنی فضاء میں سینکڑوں انسانوں کو لیکر پرندوں کی طرح اڑنا. حد سے زیادہ خود اعتماد پائلٹ کو جب تک سمجھ آتی بے قابو جہاز نے 500 سے 600 میٹر بعد دوسری طرف جھک کر دائیں انجن کو بھی زمین سے رگڑنا شروع کردیا. اب بند پہیوں کے ساتھ زبردستی کی بیلی لینڈنگ آدھی سے زیادہ ہوچکی تھی اور رن وے بھی آدھے سے زیادہ گزرچکا تھا. یعنی  گیارہ میں سے 8 ہزار فٹ. شائد پالپا کے پالے اور حد سے زیادہ خود اعتماد پائلٹ نے اپنی ساکھ (یا جہاز) بچانے کیلئے ٹاور کی بات اب ماننے کی کوشش کی اور جہاز کو اوپر اٹھانے لگا مگر بہت دیر ہوچکی تھی. کتاب(مینویل) کہتی تھی کہ جب کوئی انجن رن وے سے رگڑکھاجائے تو سمجھیں اس میں آگ لگ چکی ہے یعنی وہ فارغ ہوچکا ہے. اور چونکہ گیئر خود دیر سے کھولے تھے اور رن وے سے ٹکرانے پر دونوں انجن بظاہر فارغ ہوچکے تھے. اسی دوران ٹاور اتحاد ایئرلائن کی تہران کی فلائٹ سے بھی رابطے میں رہا. پھر وہی ہوا پائلٹ کی حد سے زیادہ خود اعتمادی کے غبارے سے تمام ہوا نکل گئی اور اس نے عام پائلٹوں کی طرح جہاز کو اوپر اٹھاکر ٹاور سے مدد مانگی. ٹاور نے اسے الٹے ہاتھ مڑنے کو کہا اور ساتھ تین ہزار فٹ پر آنے کا کہا تاکہ آرام سے دوبارہ لینڈنگ ہوسکے. پائلٹ نے جہاز کو الٹے ہاتھ کی طرف تو موڑ لیا مگر مزید اوپر اٹھانے کی کوشش کی تو انجن جواب دے چکے تھے. نتیجتاً اسنے ٹاور سے معذرت کیساتھ 2000 فٹ پر رہنے کی اجازت مانگی. جو اسے مل گئی اس دوران یہ احساس ہونے پر کہ دونوں انجن فارغ ہوگئے ہیں پائلٹ نے ٹاور کیلئے ایمرجنسی ڈکلیئر کردی. اور جہاز کو گلائیڈ کرتے اتارنے کی کوشش کی. ٹاور نے اسے دونوں رن وے دے دیئے کہ جہاں چاہے اتار لو. ٹاور نے مزید پوچھا کہ بیلی لینڈنگ تو نہیں کرنی جس پر پائلٹ کچھ نہ بولا. یاد رہے بیلی لینڈنگ کی صورت میں لینڈنگ سے پہلے جہاز کا تقریبا سارا اضافی تیل ضائع کیا جاتا ہے کیونکہ ایسی لینڈنگ کے فورا بعد جہاز میں آگ لگنے کے پورے امکان ہوتے ہیں. اس سے پہلے اگر وقت ہو تو رن وے پر فوم بھی بچھادیا جاتا ہے اور فائربریگیڈ بھی موجود ہوتا ہے. ایمرجنسی کے کچھ ہی دیر بعد پائلٹ نے ٹاور کو مزید بتایا کہ میرے انجن جواب دے گئے ہیں. جبکہ انجنوں میں تو پہلے ہی رن وے سے رگڑ کھاکر آگ لگ چکی تھی اب جہاز محض اپنی پچھلی رفتار اور اضافی پنکھے RAT (ریم ائیر ٹربائن ) کو استعمال کرکے گلائیڈ کرتے نیچے آنے لگا. ایک ایک لمحہ قیمتی تھا. جب ٹاور نے بیلی لینڈنگ کا پوچھا تو پائلٹ کو لینڈنگ گیئر یاد آئے. جو پچھلی دفعہ اسنے بہت دیر سے کھولے تھے اور بعض اوقات ایسے حالات میں کھلتے بھی نہیں(ائیر بس مینویل کے مطابق زیادہ بلندی اور زیادہ سپیڈ پر جہاز کے لینڈنگ گیئر نہیں کھلتے) یاد رہے لینڈنگ گیئر کھلنے سے جہاز کی اسپیڈ اور کم ہوجاتی ہے. اب دوسری مرتبہ رن وے سے بمشکل دو تین ناٹیکل میل پہلے ہی پائلٹ نے لینڈنگ گیئر کھولنے کی کوشش کی جوبدقسمتی سے اس بار کھل گئے. اور یوں بمشکل گلائیڈ کرتے طیارے کے گیئر کچھ لمحے پہلے کھول لینے کی وجہ سے جہاز کو ایک غیرمرئی فضائی بریک لگے اور اسکی بمشکل گلائیڈنگ کرتی رفتار تقریبا Stall یا ساکت ہوگئی اور یوں پتھر کی طرح طیارہ تیزی سے زمین پر آرہا اور اس بار پائلٹ صرف مے ڈے مے ڈے ہی کہ سکا اگر اس دفعہ بھی پہئے نا کھلتے یا دیر سے کھلتے تو شائد جہاز ایسے تباہ نہ ہوتاجہاز شائد رن وے پر پہنچ ہی جاتا مگر اب ہوا یوں کہ جب تیل سے نصف بھرا یہ جہاز, جس میں موجود مسافروں کے لئے ایک ایک میٹر اہم تھا. جونہی کاظم آباد کی آخری گلی کے گھروں کے اوپر سے گزرکر جناح گارڈن کی پہلی گلی کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ایک دو تین منزلہ عمارت کے اوپر بنی پانی کے اضافی ٹینک سے اسکی دم یا پر جا ٹکرایا. جہاز کا اگلا حصہ یا کیپسول گلی کی سڑک میں جب داخل ہوا تو ایک ایک ونگ گلی کے ایک ایک طرف بنے مکانات کی چھتوں سے ٹکراتا انجن سمیت علیحدہ ہوگیا. کاک پٹ اور اگلے داخلی دروازے کےال گ ہو گئے اور 97 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر جسے اللہ رکھے دو مسافر بچ بھی گئے۔ اس کے علاوہ ماڈل کالونی سے متصل جناح گارڈن اور کاظم آباد وغیرہ کا یہ علاقہ رن وے کے فنل(Funnel)  ایریا میں آتا ہے. جس میں بلند تو درکنار کسی بھی طرح کی تعمیرات منع تھیں اور ہیں. بہتر یہ ہوگا کہ جزوی یا مکمل تباہ ہونے والے تمام مکانات کے مالکان کو کوئی نیا این او سی (NOC) نہ دیا جائے بلکہ ان متاثرہ مقامات کو منہدم کرکے جگہ کو پارک میں تبدیل کرکے شہداء کی یادگار بنادی جائے. اور موجودہ مالکان کو کہیں اور بسا دیا جائے تاکہ کم از کم اپروچ پر جہازوں کو مزید علاقہ خالی مل سکے. اور اس قسم کے مذید کسی حادثے سے بچا جا سکے. اس کے علاوہ پی آئی اے کے پائلٹس کو بھی رول فالو کرنے کا پابند کیا جائے تا کہ ایسے ہی کسی حد سے زیادہ خود اعتمادی سے ہونے والے نقصان سے بچا جا سکے اور قیمتی جانیں بچائی جا سکیں.

Comments

Popular posts from this blog

آن دا ریکارڈ آف دا ریکارڈ

محمد عالم لوہار پنجابی لوک موسیقی کا شہنشاہ

Vaccine ویکسین